طولانی عمر
ولادت
امام زمانہ کو اب تک ١١٧٠سال گذر چکے ہیں اور یہ طولانی عمر ممکن ہے دسیوں
سیکڑوں بلکہ ہزاروں سال تک چلتی رہے۔ اسکے باوجود یہ کوئی حیرت انگیز بات
نہیں ہے کیونکہ :
١(
وہ خدائے عظیم جس نے انسان کو عدم سے خلق کیا اور ہر چیز کی ایجاد اور
اسکی بقاء صرف اس پر منحصر ہے :(اِنَّماٰ اَمرُہُ اِذٰا اَرادَ شَیئاً اَن
یقوُلَ لَہُ کُن فیَکُونَ( (1) وہ قدرت رکھتا ہے کہ اپنی مخلوق میں سے کسی
ایک کو چند ہزار سال تک زندہ رکّھے۔
قران
مجیدمیں حضرت یونس ـکے بارے میں آیا ہے کہ اگر وہ تسبیح پروردگار نہ کرتے
تو خداوند عالم انہیں روز قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھتا ۔(2)
٢(تاریخی
کتابوں میں ایسے متعدد افراد کے تذکرے ہیں جنہوں نے سیکڑوںسال تک بغیر کسی
مرض اورتکلیف کے زندگی گذاری ہے توریت میں آیا ہے کہ ''ذوالقرنین ''نے تین
ہزار سال تک کی عمر پائی ۔(3) قران کریم نے بھی حضرت نوح (ع) کی عمر کو
طوفان کے آنے سے پہلے٩٥٠سال بتایا ہے۔(4)
٣(عقلی
اعتبار سے کسی موجود کی عمر کو کسی حد کے ذریعے محدود و معین نہیں کیا جا
سکتا ہے بلکہ جو بھی حد معین کی جائے اُس سے زیادہ کا امکان باقی رہتا ہے
مثلاًایک شخص کی عمر اگر ممکن ہے ١٠٠ سال ، ١٥٠ سال یا ٢٠٠ سال معین کی
جائے تو اس سے زیادہ عمر بھی ممکن ہے اور یہ تدریجی سلسلہ اگر چندہزار سال
تک بھی پہنچ جائے اُسوقت بھی نا ممکن نہیں کہا جا سکتا ہے ۔
٤(آج
کل سائنس کے ذریعے ثابت ہوگیا ہے کہ اگر انسان کے وجودی عناصر کی ضروریات
مناسب مقدار میں اُس تک پہنچتی رہیں اور ہمیشہ بیماری سے روک تھام ہو
توانسانوں کی عمر میںحیرت انگیز طور پر اضافہ ہوجائیگالہذا کوئی حرج نہیں
ہے کہ امام زمانہ اپنے اُس خدادادعلم کی وجہ سے عام انسانوں سے زیادہ عمر
کریں۔
انتظار
آخر
کار غیبت کے یہ تلخ ایّام تمام ہوجائیںگے اور ظہور کا وہ جا نفزا موسم
پورے خطۂ ارض پر چھا جائیگا اس وقت اسلام اور توحید کا پرچم ہر طرف لہرائے
گا۔ اس نکتہ نظر سے جو بھی امام زمانہ پر اعتقاد رکھتا ہے اور اس نے آپ کی
ولایت پر باقی رہنے اور اطاعت کرنے کی قسم کھائی ہے وہ ہمیشہ امام کے ظہور
کا منتظر رہے گااور کبھی بھی خود کو اور معاشرہ کو ظہور کے لئے تیار کرنے
میںاپنی کوشش وجد و جہد سے نہیں تھکے گا۔ حدیثوں میں وارد ہوا ہے کہ امام
مہدی (عج)کاانتظار کرنا گویا راہ خدا میں جہاد کرنے کے برابر ہے بلکہ گویا
اُس شخص کو رسول خدا کے سامنے شہادت نصیب ہوئی ہو(5) انتظار کا یہ مطلب
نہیں ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور آنے والے کل کا انتظار
کرتے رہیں بلکہ انحرافات اور بدعتوں کے خلاف اعتراض اور قیام کریں اور ایک
روشن اسلامی مستقبل کے لیے زمینہ فراہم کریں ۔
منتظرین کی صفات
١(
معرفت امام اور اُسکی امامت کا اعتقاد: جب تک امام زمانہ کو نہ پہچانیں
اور اُنکی امامت کے معتقد نہ ہوں انتظاربے معنیٰ ہے اور یہ معرفت و اعتقاد
،منتظروں کی خاص اور لازم صفت ہے کیونکہ یہ دونوں انتظار کے اہم رکن میں سے
ہیں جیسا کہ امام سجّاد ـ کے کلام میں پایا جاتا ہے ''اِنَّ اَھلَ زَمانِ
غَیبَتِہ َالقاٰئلوُنَ باِماٰمتہ ِ َالمُنتَظِرُونَ لِظُھُورِہِ اَفضلُ
اَھلِ کُلِّ زَماٰن'' (6)بیشک حضرت مہدی (عج) کی غیبت کے زمانے میں وہ لوگ،
جو ان کی امامت کے قائل ہوں اور ظہور کی آس لیے ان امام کے انتظار میں
زندگی بسر کر رہے ہوں، وہ ہر زمانے کے لوگوں سے برتر ہیں ۔
٢(
تقوا اور حسن سیرت: اسلام میں پرہیزگاری اور تقوا کے علاوہ کرامت و بزرگی
کا کوئی بھی معیار نہیں ہے''اِنَّ اَکرَمَکُم ِعندَ اللہِ
اَتقیٰکُم''(7)اور اسی طرح ایمان کی پختگی اور اُسکی قیمت حسن اخلاق اور
نیک سیرت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے''اَفضَلُکُم اِیماناً اَحسَنَکُم
اخلاٰقاً'' لہذا یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ کو ئی اس دائرہ سے خارج ہو
تقوا اور نیک رفتاری سے بے بہرہ ہو اوراُسے انتظار کی فضیلت وکرامت حاصل
ہوجائے۔امام صادق ـ فرماتے ہیں ''مَن َسرَّاَن َیکوُنَ مِن اَصحاٰبِ
القاٰئمِ َفلیَنتَظِر وَ لیَعمَل باِلوَرعِ وَ محاٰسنِ الاخلاقِ وَھُوَ
مُنتَظِرِ'' (8) جو کوئی یہ چاہتا ہے کہ قائم کے اصحاب و انصار میں سے ہو
تو اُسے چاہیے کہ انتظار کرے اور ساتھ ہی ساتھ تقوا ،اور حسن اخلاق کی
بنیاد پر دوسروں سے خوش رفتاری کرے اس حال میں کہ اُسکی آنکھیں ظہورکی
منتظرہوں۔
٣(
فرمان قبول کرنا : جو کوئی اپنے امام معصوم کا منتظر ہو اور زندگی کے تمام
مراحل میں ان کی رہبری کا معتقد ہو وہ ان کی اطاعت کو واجب سمجھے گا اور
زمان غیبت میں ان امام فرمان کی اطاعت کرگا اور خود کو آمادہ کرے گا تاکہ
ظہور امام کے وقت آنحضرت کی بے چوںچرا اطاعت کر ے امام صادق ـ فرماتے ہیں
'' طْوْ بیٰ لِشَیَعْةِقاٰئِمَنَا الْمْنْتَظِرینَ لِظْھْوْرِ ہ
ِوَالْمْطیعینَ لَہْ فی ظْھْوْرِہِ''(9) زہے نصیب ہمارے قائم کے شیعہ کہ ان
کی غیبت میں ان کا انتطار میں جیتے ہیں اور وقت ظہور ان کے مطیع ہیں۔
٤(
امام (عج)کے دوستوں سے دوستی انکے دشمنوں سے دشمنی:ہر انسان کے لیے دوستی
کو پرکھنے کا سب سے عمدہ ذریعہ یہ ہے کہ اُسکے دوست اور دشمن کو پہچانے۔
دوست
کے دشمن اور دشمن کے دوست کو کبھی دوست نہیں کہا جاتا ہے اُسی طرح سے دوست
کے دوست اور دشمن کے دشمن کو بھی دشمن نہیں سمجھتے ہیں یہ بات فطری ہے کہ
ہر انسان اپنے محبوب کے چاہنے والوں کا دوست اور اُسکے دشمنوں کا دشمن ہوتا
ہے۔
یقیناًامام
زمانہ کے منتظر بھی آپکے دوستوں کے دوست اور آپکے دشمنوں کے دشمن ہیں
پیغمبر اکرم ۖفرماتے پیں '' طْوْ بیٰ لِمَنْ اَدْ رَکَ قَائِمَ اَھْلَ
بَیْتی وَ ھْوَ یَاتَمّْ بِہِ فی غَیْبَتِہِ قَبْلَ قِیَا مِہِ وَ
لْیَتَوَلّٰی اَوْلِیَائَہْ وَ یْعَا دی اَعْدٰائَہْ''(10)زہے نصیب وہ
افراد جنہوں نے میرے قائم اہل بیت کو درک کیا اور ان کی غیبت کے زمانے میں
قیام سے پہلے ان کی پیروی کی ان کے دوستوں کو دوست رکّھااور انکے دشمنوں کو
دشمن قرار دیا۔
ظہور سے پہلے کی علامتیں
حضرت
مہدی (عج)کے ظہور کی اہمیّت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اور اشتباہات اور سوئے
استفادہ سے روک تھام کے لیے خداوند عالم نے ظہور سے پہلے چند علامتیں مقرر
فرمائیں ہیں اِن علامتوں کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں :
١( قطعی علامتیں
٢( غیر قطعی علامتیں
قطعی
علامتیں وہ ہیںجن کے سلسلے میں متواتر روایتیںوارد ہوئی ہیں اور اْنکے
واقع ہونے کی تاکید بھی کی گئی ہے مانند خروج سفیانی اور قتل نفسِ
زکیّہ۔(11)
غیر
قطعی علامتیں وہ ہیں جن کے سلسلے میں متواتر روایت نہیں پائی جاتی ہے یا
معصوم کے توسط سے اْنکا حتماً واقع ہونا نہیں پایا جاتا ہے ۔ مانند پانچ
دفعہ چاند گہن اورپندرہ دفعہ سورج گہن ۔(12)
علامات ظہور پر ایک اجمالی نظر
بہت
سی ایسی روایتیں ہیں جن میں علامات ظہور کا تذکرہ ہے جن کے مطابق امام
زمانہ (عج) کا اس وقت ظہور ہو گا جب دنیا ظلم و جور سے بھر جائیگی ''…کَمٰا
مُلِئَتُ ظُلْماًوَجَوْراً ''(13)
امام صادق ـنے اپنے ایک صحابی سے علامات ظہور بیان فرمائی ہیں جنہیںہم مختصر طور پر بیان کر رہے ہیں:
امام زمانہ کے ظہور کی علامتیں:
٭خروج دجّال ۔
٭ نفس زکیہ کا قتل ۔
٭سید حسنی کا خروج ۔
٭١٥ /ماہ مبارک رمضان کو سورج و چاند گرہن لگنا۔
٭سفیانی کا خروج ۔
٭ندائے آسمانی ۔
٭ظہوراس وقت ہوگا جب دنیا ظلم وجور سے لبریز ہو جائیگی ۔
٭اہل باطل اہل حق پر سبقت لیںگے۔
٭سود خوری عام ہو جائیگی۔
٭زنا عام ہوجائیگا۔
٭چھوٹے بڑوںکی عزّت نہیں کریں گے ۔
٭راہ خیر پر چلنے والوںکی تعداد کم اور را ہ شر پر چلنے والوںکی تعداد زیادہ ہو جائیگی ۔
٭مکّاری اور چاپلوسی زیادہ ہوجائیگی۔
٭ لوگ آشکار جوا کھلیں گے اور شراب پئیں گے۔
٭ لوگوں کوقرآن کے حقائق سننا گراںگذرے گا ۔
٭ اگر کوئی امر بالمعروف ونہی عن المنکرکرنے والاہوگا تو اسے لوگ نصیحت کریںگے
کہ یہ تمہارا کام نہیںہے !
٭
مسجدوںمیںا ن لوگوںکی بھیڑ ہوگی جنکے دلوں میں ذّرہ برابر خدا کا خوف نہ
ہوگا ٭ لوگ دولت اور دولتمند افراد کے آگے سر تسلیم خم کریں گے۔
٭ لوگ اپنے مال کو راہ خدا میں صرف کرنے کے بجائے راہ شر میں خرچ کرناشرف
سمجھیںگے !
٭ ایسے لوگ پیدا ہوجائیںگے جو ایک روز گناہ کبیرہ انجام نہ دیںگے تو پریشان و
مضطرب رہیںگے !
٭ لوگوںکی مدد صورت دیکھ کر کی جائیگی۔
٭ تنگ دست اور نیاز مندوںکی مددمیںسفارش چلے گی!
٭ لوگوں کے نزدیک وقت نماز کی کوئی اہمیت نہ ہو گی ! (14)
علامات
ظہور کے سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ اِن علامتوں میں سے کسی بھی علامت کا
نہ پایا جانا اس بات کی نشانی نہیں ہوگا کہ ظہور میں تأخیر ہوسکتی ہے
کیونکہ ''خداوند متعال ظہور کے مقدمات کو تنہا ایک شب میں پورا کردیگا''اور
اس امر کا لازمہ یہ ہے کے ہم ہمیشہ منتظر رہیں اور اپنے آپ کو ہمیشہ آمادہ
رکھیں۔
……………………………
(1) یس ٣٦، آیہ ٨٢
(2) صافات ، آیہ ١٤٤
(3) منتخب الاثر ص٢٧٦
(4) عنکبوت آیہ ١٤
(5) بحارالانوار ج٥٢/ص١٢٦
(6) بحارالانوار ج٥٢/ص٢٢١،ح٤
(7) سورہ حجرات آیہ ١٣
(8) بحارالانوار ج٥٢/ص١٤٠،ح٥٠
(9) بحارالانوار ج٥٢/ص١٥٠،ح٧٦
(10) بحارالانوار ج٥١/ص٧٢
(11) منتخب الاثر ، ص٤٣٩
(12) منتخب الاثر ، ص٤٤٠
(13) بحار الانوار ج ٥١/ص٣٠ (باب ٢، اسمائہ و القابہ ( بحار الانوار ج ٥١/ص٣٣ (باب٣، النھی عن التسمیہ(
(14) بحار الانوار ج ٥١/ص٥٢،ص٢٥٦۔٢٦٠ حدیث ١٤٧
0 comments:
Post a Comment